قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
(وَحُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْدُہ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ وَالطَّیْرِفَہُمْ یُوْزَعُوْنَ ۔ حَتّٰی اِذَااَتَوْاعَلٰی وَادِالنَّمْلِ لا قَالَتْ نَمْلَة یّٰاَیُّھَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰکِنَکُمْ ج لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَجُنُوْدُہ لا وَہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ)
” اورسلیمان کے لیے (کسی مہم کے سلسلہ میں )اس کے جنوں،انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے اوران کی جماعت بندی کر دی گئی تھی۔ یہاں تک جب وہ چیونٹیوں کی ایک وادی پر پہنچے تو ایک چیونٹی بول اٹھی ،”چیونٹیو!اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ۔ایسانہ ہو کہ سلیمان اورا س کے لشکر تمہیں روند ڈالیں اورانہیں پتہ بھی نہ چلے”(1)
زمانہ قدیم میں بعض لوگ قرآن مجید میں بیان کردہ اس طر ح کی باتوں کا ٹھٹھہ اڑاتے تھے کہ اس میں عجیب طرح کے قصے کہانیاں ہیں کہ جن کے متعلق انسان تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہ سچی ہوں گی مثال کے طور پر اسی آیت کو ہی لے لیں کہ جس میں بتایا گیا ہے کہ چیونٹیاں نہ صرف باتیں کرتی ہیں بلکہ ایک دوسرے کو اطلاعات بھی بہم پہنچاتی ہیں۔تاہم جدید تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ حشرات اور جانوروں میں سے چیونٹیوں کا رہن سہن انسان کے طرز زندگی کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔(2) جدید تحقیق کے نتیجے میں درج ذیل باتیں چیونٹیوں کے متعلق سامنے آئی ہیں۔
حشرات میں سب سے زیادہ معاشرت پسند چیونٹی ہے۔یہ انتہائی منظم معاشروں میں زندگی گزارتی ہے جنہیں بستیاں کہتے ہیں۔ان کا نظم وضبط اس درجہ کا ہے کہ تہذیب ِانسانی کے متماثل تہذیب کی دعویدارہو سکتی ہیں۔بچوں کی دیکھ بھال اور بستی کی حفاظت کرتی ہیں۔خوراک پیدا کرتی اور سنبھالتی ہیں اور پھر باقی سب کاموں کے ساتھ ساتھ جنگ سے بھی دو چار ہوتی اورکرتی ہیں۔ ایسی بستیاں بھی ہیں جہاں خیاطی،کاشتکاری اورمویشی پروری جیسے کام ہوتے ہیں۔ان کے مابین باہمی ابلاغ کانہایت موثر نظام موجود ہے۔معاشرتی تنظیم ،تخصیص ِکار اورتقسیم کار کے حوالے سے کوئی دوسرا جاندار ان کامقابلہ نہیں کرسکتا۔
چیونٹیوں کی معاشرتی زندگی
جیسے کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ چیونٹیاں بستیوں میں رہتی ہیں اوران کے درمیان مکمل تقسیم کار موجود ہے، ان کے معاشرتی ڈھانچے کا قریبی جائزہ اورمطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں۔یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ثابت ہو گا کہ ان میں قربانی دینے کی صلاحیت ہم انسانوں سے کہیں زیادہ ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان میں امیر غریب کی جنگ یا درجہ ومرتبہ کے حصول جیسی کوئی چیز نہیں جو انسانی معاشروں کا خاصا ہے۔ بہت سے سائنس دانوں نے ان کے سماجی روّیے پر برسوں تحقیق کی ہے لیکن ان کا ترقی یافتہ معاشرتی رویہ ان پر کھل نہیں سکا۔ واشنگٹن کے کارنیگی انسٹیٹیوٹ کے صدر ڈاکٹر کیریل پی ہیکسن نے برملا اعتراف کیا ہے کہ :
”ساٹھ برس سے جاری تحقیق وتدقیق کے بعد بھی میں چیونٹیوں کے مفصل سماجی رویے کو بچشم حیرت دیکھ رہا ہوں۔ انہوں نے بو اور اعضا کی زبان کا ایک پیچیدہ نظام وضع کر رکھا ہے جو انہیں مکمل ابلاغ فراہم کرتاہے۔ چیونٹیاں حیوانی رویے کی ذیل میں ہمیں ایک اچھا رہنما خاکہ فراہم کرتی ہیں۔”
ان کی کچھ بستیاں رقبے اورآبادی میں اتنی بڑی ہوتی ہیں کہ ان کی وضاحت کے لیے انہیں ایک بڑی ریاست مان کر کام کاآغاز کرناپڑتاہے۔ اس لیے ڈاکٹر پی ہیکسن کے نتائج سے اتفاق کرنا پڑتاہے۔ بڑی بسیتوں کی ایک مثال افریقہ کے ایشی کاری ساحل پر ”فارمیکا”چیونٹی کی آبادیاں ہیں۔ ان میں سے ایک بستی کوئی 2.7مربع کلومیٹر پر محیط ہے جس میں کوئی 45,000گھروندے ہیں جو باہم منسلک ہیں۔
اس بستی میں 10لاکھ 80ہزار” ملکائیں ”اور 30کروڑ60لاکھ کارکن چیونٹیاں ہیں۔ ایسی بسیتوں کو سپرکالونی (Super Colony) کانام دیاجاتا ہے۔ بستی کے اندر خوراک اور پیداواری آلات کے لین دین کا ایک منظم طریقہ رائج ہے۔ چیونٹیوں کی اتنے بڑے علاقے میں نظم وضبط برقرار رکھنے میں کامیابی ناقابلِ فہم ہے۔ ان کی بستی میں پولیس یا محافظوں کی ضرورت کبھی محسوس نہیں ہوتی۔ ملکہ کا فرض صرف نسل کی بقاہے ‘وہ بستی کی سربراہ ہیں۔ان کے ہا ں گورنر ہوتا ہے نہ رہنما۔ا س لیے ان کے ہاں درجہ بدرجہ اوپر سے نیچے چلنے والا کوئی سلسلہ احکام بھی نہیں۔
ذات پات کا نظام
ایک مثالی بستی میں چیونٹیوں کی تین بڑی ذاتیں ہوتی ہیں۔ پہلی ذات ملکاؤں اوران نروں کی ہے جو نسل کشی کا کام کرتے ہیں۔ملکہ اپنی تناسلی ذمہ داری کی وساطت سے کالونی کی تعمیر میں مصروف افراد کی تعداد کومتوازن رکھتی ہے۔ اس کا جسم دوسری چیونٹیوں سے بڑا ہو تاہے۔ دوسری طرف نر کی ذمہ داری صرف مادہ کو بارور کرنا ہے۔ تقریباً تمام نر اپنی پہلی عروسی پرواز کے بعد ہی موت سے ہمکنار ہوجاتے ہیں۔
دوسری ذات سپاہی چیونٹیوں پر مشتمل ہے۔ یہ بستیوں کی دیکھ بھال ،شکار اورنئی رہائشی بستیوں کے لیے علاقے کی تلاش کا کام کرتی ہیں۔تیسری ذات کارکن چیونٹیوں کی ہے۔ ساری کارکن چیونٹیاں بانجھ مادائیں ہیں۔ ان کا کام مادر چیونٹی کی دیکھ بھال اوربچوں کی صفائی ستھرائی ہے۔بستی کے باقی سب کام بھی انہی کی ذمہ داری ہے۔ کارکن گھروندوں کی راہ داریاں اورگیلریاں بناتے ہیں ، خوراک تلاش کرتے ہیں اورگھروندوں کی صفائی کرتے ہیں۔ یہ مسلسل جاری وساری عمل ہے۔ کارکن اور سپاہی چیونٹیوں کی آگے چل کر مزید گروہ بندی ہوتی ہے۔ ان گروہوں کو غلام،چور،آیا ،معمار اورذخیرہ کرنے والوں کے نام دیے جاتے ہیں۔ہر گروہ کا اپنا کام ہے۔ ایک گروہ کی ساری توجہ دشمن کے خلاف جنگ یا شکار کی طرف ہوتی ہے۔ دوسرا گروہ گھروندے بناتاہے۔ ایک اور گروہ ایسابھی ہے جوان سب کی خبر گیری کرتاہے۔
ایک مثالی ہیڈکوارٹر
آئیے ہم چیونٹیوں کی بستی کے نظام کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔فرض کریں کہ آپ ایک بہت ہی بڑے اورمکمل نظم وضبط کے حامل فوجی ہیڈکوارٹر پر پہنچتے ہیں۔یوں لگتاہے کہ آپ اس میں داخل نہیں ہوسکیں گے کیونکہ گیٹ پر متعین گارڈکسی ایسے شخص کو اندر نہیں جانے دیتے جسے وہ جانتے نہیں۔ ا س عمارت کی حفاظت ایک ایسے حفاظتی نظام کے تحت کی جاتی ہے جس کی سختی سے جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔
اب فرض کریں کہ اچانک آپ کو اندرجانے کا راستہ مل جاتاہے۔ اندرون خانہ جاری کئی متحرک اورمنضبط سرگرمیاں آپ کو متوجہ کرلیتی ہیں۔ہزاروں سپاہی ایک لگے بندھے نظام میں اپناکام کررہے ہیں۔ جب آپ اس تنظیم کا رازجاننے کی کوشش کرتے ہیں توآپ کو پتہ چلتاہے کہ عمارت بنائی ہی اس طرح گئی ہے کہ اس کے باشندے آرام دہ ماحول میں کام کرسکیں۔ہر کام کے لیے علیحدہ شعبہ ہے جس کا ڈیزائن ،سہولت کار کو مدنظر رکھ کر تیار کیا گیاہے۔ مثلاً عمارت اگرچہ زیر زمین تہہ خانوں اورکئی منزلوں پر مشتمل ہے لیکن سورج کی روشنی کی ضرورت ہے اس منزل کا محل وقوع ایسا ہے کہ زیادہ سے زیادہ روشنی اندر داخل ہو سکتی ہے اورجن شعبوں کو ایک دوسرے سے مسلسل واسطہ رہتاہے ایک دوسرے کے قریب بنائے گئے ہیں اوررسائی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنایا گیا ہے۔ زائد از ضرورت سامان رکھنے کا شعبہ عمارت میں ایک طرف علیحدہ تعمیر کیا گیا ہے جہاں پر عام ضرورت کا سامان رکھا گیا ہے۔ اس کا محل وقوع ایسا ہے کہ ہر کسی کی رسائی آسانی سے ہو۔
ہیڈ کوارٹر کے خدوخال یہیں تک محدودنہیں ہیں۔ تمام تر وسعت کے باوجودعمارت کو یکساں طورپر گرم رکھاگیا ہے۔ بہت ترقی یافتہ مرکزی حرارتی مرکز کی وجہ سے عمارت کو تمام دنکسی بھی مطلوبہ درجہ حرارت پررکھا جاسکتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ساری عمارت کو بیرونی موسمی حالات ، چاہے وہ کتنے شدید ہوں،سے بچانے کے لیے حاجز دیواروں کے اندر بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ تقسیم کار کے لحاظ سے درج ذیل حصے یا شعبے پائے جاتے ہیں۔
1۔ فضائی دفاعی نظام
جب چیونٹیوں کے سب سے بڑے دشمن حملہ آور ہوتے ہیں تو لڑاکا چیونٹیاں پشت کے بل الٹی لیٹ کر بستی کے سوراخوں سے اوپر پرندوں کی طرف تیزاب فائر کرتی ہیں۔
2۔ گرین ہاؤس
جنوبی رخ کے اس خانے میں ملکہ چیونٹی کے انڈے رکھے جاتے ہیں۔اس خانہ کادرجہ حرارت 38سینٹی گریڈ رکھا جاتا ہے۔
3۔ مرکزی دروازہ اوربغلی دروازے
ان دروازوں پر چوکیدار چیونٹیاں متعین ہوتی ہیں۔ خطرے کی صورت میں یہ اپنے سر سوراخوں میں پھنسا کر دروازے بندکردیتی ہیں۔ بستی کی رہائشی چیونٹیاں داخل ہوناچاہیں تو اپنے سر پر لگے بال نما انٹینا سے چوکیدار کے سر پر دستک دیتی ہیں اوردروازہ کھل جاتاہے۔ اگرانہیں اپنی اس دستک کا طریقہ بھول جائے توچوکیدار انہیں وہیں ہلاک کردیتاہے۔
4۔ مردہ خانہ
اس خانے میں چیونٹیاں اناج کے دانوں کے غیر استعمال شدہ خول اورمردہ چیونٹیوں کے جسم رکھتی ہیں۔
5۔ محافظوں کا کمرہ
اس کمرے میں سپاہی چیونٹیاں 24گھنٹے تیاررہتی ہیں۔خطرے کا معمولی سااشارہ بھی ملے توفوراً جوابی عمل کرتی ہیں۔
5۔بیرونی حاجز تہہ
عمارت کی بیرونی دیوار گھاس پھونس اورچھوٹی چھوٹی ٹہنیوں سے بنائی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے بیرونی موسمی اثرات جیسے گرمی اورسردی وغیرہ عمارت کے اندرونی ماحول پر اثر انداز نہیں ہوتے۔
7۔ بچوں کی پرورش کا خانہ
ا س کام پر متعین چیونٹیاں ایک سفید میٹھی رطوبت پیداکرکے جسم میں جمع رکھتی ہیں۔بوقت ضرورت پیٹ کو اپنے انٹینا سے چھید کر بچوں کو کھلاتی ہیں۔
8۔ گوشت کا ذخیرہ خانہ
مکھیاں ،جھینگر ،دشمن چیونٹی اوردوسرے حشرات کو ہلاک کرنے کے بعد اس خانے میں رکھاجاتاہے۔
9۔ اناج خانہ
چیونٹیاں اناج کے بڑے ٹکڑوں کو کتر کر چھوٹے چھوٹے ذرات میں تبدیل کرتی ہیں۔ یہ موسم سرما میں بطور ڈبل روٹی استعمال ہوتے ہیں۔
10۔ لاروا کی دیکھ بھال کا خانہ
اس جگہ لاورا کو خاص چیونٹیاں اپنا لعاب دہن لگاتی ہیں جس میں اینٹی بائیوٹک مرکبات شامل ہوتے ہیں۔اس طرح اُن کے بیمار ہونے کا امکان کم ہوجاتاہے۔
11۔ سردیوں کا خانہ
سرمائی نیند سونے والی چیونٹیاں اس خانے میں نومبر سے مئی تک سوئی رہتی ہیں۔ جاگنے پر ان کا پہلا کام اس کمرے کی صفائی ہوتا ہے۔
12۔ عمارت کو گرم رکھنے کا انتظام
اس شعبے میں پتوں کے ٹکڑوں کو گھاس پھونس سے ملایاجاتاہے۔اس عمل سے خارج ہونے والی حرارت سے عمارت کا اندرونی درجہ حرارت 20سے 30سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔
13۔ انڈوں کا ذخیرہ
اس خانے میں ملکہ کے انڈے ترتیب سے رکھے جاتے ہیں۔جو انڈہ ایک خاص عمر تک پہنچتاہے اسے اٹھا کر گرین ہاؤس میں پہنچادیا جاتاہے۔
14۔ شاہی کمرہ
اس میں ملکہ انڈے دیتی ہے۔ اسے کھلانے اورصفائی کے ذمہ دار کارکن اسی جگہ ملکہ کے ساتھ قیام کرتے ہیں۔ اس صدی میں کی گئی تحقیقات سے پتہ چلتاہے کہ اس مخلوق میں ذرائع ابلاغ کا ناقابل یقین سلسلہ پایا جاتاہے۔ ”نیشنل جیوگرافک ”کی ایک اشاعت میں اسے یوں بیان کیا گیا ہے۔ ”ہر چیونٹی ، بڑی ہو یا چھوٹی ‘کے دماغ میں حسی اعضا کا ایک نظام ہوتا ہے جوکئی ملین کے حساب سے کیمیائی اوربصری پیغام وصول کرتااورسمجھتاہے۔ اس کا دماغ پانچ لاکھ اعصابی خلیوں سے مل کر بناہے۔ اس کی آنکھیں بھی ایک سے زیادہ عدسوں سے مل کربنی ہیں۔سرسے نکلے ہوئے بال یعنی انٹینا وہی کام کرتے ہیں جو انسانی انگلیوں کی پوریں اورناک کرتی ہے۔ منہ کے نیچے دہانہ کے اندر کے ابھار ذائقہ محسوس کرتے ہیں۔اس کے بال کسی چیز کے ساتھ مس کرکے اسے پہچانتے ہیں”۔
انہی حسی اعضا کی مدد سے چیونٹی کا بے مثال سلسلہ ابلاغ کام کرتاہے۔ و ہ ساری زندگی اس سے کام لیتی ہے۔ شکار کی تلاش اور تعاقب ،ساتھی کارکنوں سے رابطہ، بستی کی تعمیر اورحفاظت غرض یہ کہ ہر شعبہ ٔحیات میں انہی اعضا سے مدد لی جاتی ہے۔ ہم انسانوں کو حیران کردینے والا پانچ لاکھ اعصاب پر مشتمل یہ جال دو سے تین ملی میٹر کے جسم میں بناگیاہے۔ذہن میں رہے کہ پانچ لاکھ خلیوں پر مشتمل یہ نظام ایسی چیونٹی کے اندر موجود ہے جو انسانی جسم کا صرف دس لاکھواں حصہ ہے۔
کیمیائی پیغام رسانی یا ابلاغ
چیونٹیوں کے مابین پیغام رسانی کیمیائی مادوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ باہمی ابلاغ کے لیے جو کیمیائی مادے چیونٹیاں استعمال کرتی ہیں ان کا اجتماعی نام (Semio Chemical)ہے۔ ان کیمیائی مادوں کو دوبڑی قسموں میں تقسیم کیاجاتاہے۔ فیرومون (Pheromones)اور ایلومونز (Allomones)۔
جب مختلف انواع کے درمیان پیغام رسانی کی ضرورت ہو تو ایلومون استعمال کیا جاتاہے۔ لیکن ایک نوع سے تعلق رکھنے والی چیونٹیاں آپس میں پیغام رسانی کے لیے فیرومون استعمال کرتی ہیں اوریہی سب سے زیادہ استعمال ہونے والا خامرہ یعنی ہارمون ہے۔ یہ خامرہ ان کے جسموں میں موجود بے نالی غدود (Endocrine Gland) بناتے ہیں۔ایک چیونٹی اسے خارج کرتی ہے تودوسری چیونٹیاں اسے سونگھ کر یا چکھ کر پیغام سمجھ جاتی ہیں اوراس کے مطابق ردعمل دیتی ہیں۔
جو چیونٹی خوراک تلاش کرتی ہے دوسری چیونٹیوں کو وہاں پہچانے کے لیے درج ذیل طریقہ اختیار کرتی ہے۔ بستی کی طرف واپسی کے سفر میں وہ وقفے وقفے سے پیٹ کو زمین کے ساتھ لگاتی اور خاص کیمیائی پیغام چھوڑتی چلی آتی ہے۔ لیکن یہ کام شکار یا خوراک سے بستی تک ایک چکر میں مکمل نہیں ہوتا۔ چیونٹی تین سے سولہ چکر میں اپنے گھروندے میں موجود چیونٹیوں سے رابطہ کرتی ہے۔ جب تک وہ انہیں ساتھ لے جانا نہیں چاہتی کوئی اس کے ہمراہ نہیں جاتا۔صرف وہی چیونٹیاں اس کے ہمراہ جائیں گی جنہیں انٹینا کے مس سے پیغام دیا گیاہے۔ عام طورپر پہلے ہر اول دستہ خوراک تک جاتاہے اورواپسی کے سفر میں ایک بار پھر راستے پر کیمیائی نشان لگا دیتاہے۔ اب جو چیونٹیاں خوراک تک جائیں گی انہیں سکاؤٹ یا رہنما چیونٹی کی ضرورت نہیں، وہ اسی کیمیائی طورپر متعینہ راستے پر چلتی ہوئی منزل تک پہنچ جاتی ہیں۔
دریافت شدہ ذخیرہ خوراک تک رہنمائی کے لیے کئی طرح کے کیمیائی مادے استعما ل ہوتے ہیں۔مختلف مادے کیوں استعمال کیے جاتے ہیں؟ ماہرین کا اندازہ ہے کہ بستی اورذخیرہ خوراک تک ایک سے زیادہ راستے بنائے جاتے ہیں اورہر راستے پر الگ کیمیکل سے نشان لگا دیاجاتاہے۔ جب پیغام کی شدت میں کمی بیشی مقصود ہو تو پیغام رسانی کے لیے استعمال ہونے والے کیمیکل کی مقدار کم یا زیادہ کردی جاتی ہے۔ پیغام کی شدت عام طور پر بستی کے بھوکا ہونے یانئے گھروندوں کی ضرورت ظاہر کرتی ہے۔
کیمیائی ابلاغ میں لمس کا کردار
چیونٹیا ںبستی میں نظم وضبط کے لیے ہدایات لینے اور دینے کے لیے ایک دوسرے کو انٹینا سے مس کرتی ہیں۔ اس لیے کہا جاسکتاہے کہ ان کے مابین ایک انٹینا زبان بھی موجودہے۔ لیکن اس زبان کا استعمال محدود ہے۔ اسے کھانا یا میٹنگ وغیرہ شروع ہونے کی اطلاع یا شرکت کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔ یہ زبان زیادہ ترایک نوع کی چیونٹیاں اور ان میں سے بھی زیادہ تر کارکن استعمال کرتی ہیں۔
چیونٹیوں کی کچھ انواع دعوت دینے کے اس طریقے سے زیادہ کام لیتی ہیں۔ اس کی مثال (Bypo Ponera) نوع ہے۔ اس نسل کے دو کارکن آمنے سامنے آتے ہیں تو مدعو کرنے والی چیونٹی اپنا سر نوے درجے کے زاویے پر ایک طرف موڑ لیتی ہے اور اپنی دوست کے سر کے بالائی اورزیریں حصے کو اپنے انٹینے سے چھوتی ہے ،جسے دعوت دی جارہی ہے۔ وہ بھی یہی عمل دہراتی ہے۔ لیکن جب ایک گھروندے کی چیونٹیاں اس طرح مس کرتی ہیں تومقصد اطلاع دینا نہیں بلکہ دوسرے کے خارج کردہ ہارمون حاصل کرکے اطلاع لیناہو تا ہے۔ ایک چیونٹی دوسرے کے ہارمون لے لیتی ہے اورآگے بڑھ جاتی ہے۔ اب وہ اس قابل ہے کہ اس کے راستے کو سونگھ کر پہچانتی اوراس پرچلتی ہے۔ا س طرز ابلاغ کی ایک دلچسپ مثال اس وقت سامنے آتی ہے جب مس کیے جانے پر ایک چیونٹی اپنے جسم میں محفوظ شدہ خوراک نکا ل کر مس کرنے والی چیونٹی کو کھلاتی ہے۔
اس موضوع پر ایک دلچسپ تجربے میں ما رمیکا (Myrmica)کو استعمال کیا گیا۔ انسانی بال سے ان کے مختلف حصوں کو چھیڑا گیا تووہ خوراک جسم سے اگلنے پر آمادہ ہوگئیں۔ سب سے جلد ی وہ چیونٹیاں تیارہو تی ہیں جنہوں نے ابھی ابھی کچھ کھایا ہواوروہ اپنے گھروندے میں رہنے والی دوست کی تلاش میں ہوں کہ اسے بھی خوراک میں شامل کیا جائے۔ بعض طفیلی حشرارت الارض اپنی خوراک اسی طریقہ سے حاصل کرتے ہیں۔وہ صرف اتناکرتے ہیں کہ اپنے انٹینا اوراگلی ٹانگوں سے چیونٹی کے جسم پر دستک دیتے ہیں اوروہ اپنے جسم سے خوراک نکال کر اسے پیش کردیتی ہے۔
ابلاغ بذریعہ آواز
چیونٹیاں بذریعہ آواز بھی پیغام رسانی کرتی ہیں۔ان میں دو طرح کی آوازیں دو مختلف طریقوں سے پید اکی جاتی ہیں۔ایک آواز تھپتھپاہٹ نما ہے اوردوسری تیکھی آواز۔ تھپتھپاہٹ نما آواز پید اکرنے کے لیے چیونٹیاں زمین یا کسی اورچیز پر اپنے جسم کے کسی حصے سے دستک دیتی ہیں جبکہ تیز آواز پید اکرنے کے لیے جسم کا کوئی حصہ کسی دوسرے حصے سے رگڑا جاتاہے۔ دستک سے آواز پیدا کرنے کا طریقہ درختوں کے تنوں میں بنی بستیوں میں استعمال ہوتاہے۔
اس کی ایک مثال کارپینٹر چیونٹیاں یابڑھئی چیونٹیاں ہیں۔ جب انہیں یہ پتہ چلتاہے کہ کوئی خطرہ بستی کی طرف بڑھ رہاہے تو ڈھو ل پیٹنا شروع کردیتی ہیں۔خطرے کاادراک زمین کے ارتعاش، ہوا کی لہر یا جسمانی لمس سے کیاجاتاہے۔ پیغام دینے والی چیونٹی اپنے سر اورپیٹ کو زمین سے ٹکرانے لگتی ہے اوراس سے پیدا ہونے والا ارتعاش کئی ڈیسی میٹر دورتک محسوس ہوتاہے۔امریکہ کی کارپینٹر چیونٹیاں یابڑھئی چیونٹیاں اپنا سر یا پیٹ لکڑی کے ”کمروں”کی دیواروں سے ٹکرا کر 20سینٹی میٹر دورتک پیغام بھیج سکتی ہیں۔اگرجسامت کے تناسب سے دیکھا جائے تو چیونٹی کے لیے 20سینٹی میٹرانسانی حساب سے کوئی 60سے 70میٹر تک ہوتاہے۔
ایک اور سائنس دان پروفیسر رابرٹ ہیکلنگ نے بھی چیونٹیوں کے متعلق برسوں تحقیق کے بعد ان کی آوازوں کو ریکار ڈ کیا ہے اور کہا ہے کہ چیونٹیوں کی آواز کی فریکوئنسی ایک چیونٹی سے دوسری چیونٹی تک اور پھر ایک نوع کی چیونٹیوں سے دوسری نوع کی چیونٹیوں کے درمیان بدلتی رہتی ہے ۔ انہوں نے چیونٹیوں کی موقع ومحل کے لحاظ سے مثلا ً نارمل حالات، خطرے کے وقت اور کسی کیڑے پر حملہ کرنے کے دوران بولے جانے والی مختلف آوازوں کو ریکار ڈ کیا ہے (چیونٹیوں کی یہ آوازیں انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں)اور اپنی اس تحقیق کو 2006 ء میں شائع ہونے والے میگزین (Journal of Sound and Vibration) میں شائع کیا ہے۔سائنسدانوں کا خیال ہے کہ چیونٹیاں ایک دوسرے تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے اپنے انٹینا کا استعمال کرتی ہیں ۔ وہ اپنے اس انٹینے کے ذریعے دوسری چیونٹی کے ارسال کردہ پیغام کو ناصرف کسی بھی جدید ریسیور کی طرح کمزور پہنچنے والے سگنلز کو مضبوظ بناتی ہیں بلکہ ان کو اس حد تک فلٹر بھی کرتی ہیں کہ وہ جان سکیں کہ یہ پیغام کس چیونٹی نے ارسال کیا ہے ۔
نسل کی بقا
ہوسکتاہے بظاہر سب چیونٹیاں ایک سی نظرآئیں لیکن طرزِزندگی اورجسمانی تنوع کے اعتبار سے انہیں مختلف ذیلی انواع میں تقسیم کیاجاتاہے۔ چیونٹیوں کی تقریباً 12000مختلف انواع ہیں۔ان کی بستی زیادہ تر مادہ چیونٹیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔نر چیونٹیوں کی زندگی مختصر ہوتی ہے۔ ان کا کام صرف بالغ ہونے پر ملکہ کے ساتھ ملاپ کرناہے۔ تمام کارکن چیونٹیاں مادہ ہوتی ہیں۔
چیونٹی کا جنسی ملاپ اچھی خاصی تقریب ہوتی ہے۔ یہ ملاپ زیادہ تر ہو امیں ہوتاہے۔ نر پہلے پہنچ جاتے ہیں اور نوجوان ملکہ کا انتظارکرتے ہیں۔ملکہ کے بھی اوائل عمری میں پر ہوتے ہیں۔جب ملکہ زمین پر اترتی ہے تو پانچ چھ نر اس کے گرد دوڑنے لگتے ہیں۔ جب ملکہ ضرورت کے مطابق نر تخم اکٹھے کرلیتی ہے توایک خاص ارتعاشی اشارہ دیتی ہے۔ اس اشارے سے نر کو ملکہ کی روانگی کا پتہ چل جاتاہے۔ ملکہ کے رخصت ہونے کے بعد نر چند گھنٹے یا زیادہ سے زیادہ ایک آدھ دن زندہ رہ سکتے ہیں۔ تاہم یہ عمل بہت دلچسپ ہے۔ عروسی پرواز پر جانے والے ہر نر نے مرنے سے پہلے اپنا تخم ضرور چھوڑاجن میں سے اس کے بچے اس کے مرنے کے لمبا عرصہ بعد نکلتے ہیں۔لیکن یہ تخم اتنا لمبا عرصہ کس طرح رہتے ہیں کہ انڈوں کو بعد ازاں بارور کرسکیں۔کیا چیونٹیوں نے کسی اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مدد سے کوئی تخم بینک قائم کرلیاہے۔
جی ہاں! ہر ملکہ چیونٹی کے اندر تخم بینک موجود ہوتاہے، ا س کے جسم کے وسطی حصہ میں ایک کنارے پر ایک تھیلی میں تخم محفوظ رہتے ہیں۔ اس تھیلی کو (Sperma Theca) کانام دیا جاتا ہے۔ ا س میں تخم سالوں تک بے حس وحرکت پڑے اپنی باری کاانتظار کرتے رہتے ہیں۔بالآخر جب ملکہ اس تھیلی میں سے انہیں بہنے کی اجاز ت دیتی ہے تویہ ایک ایک کر کے یا گروہوں میں تناسلی علاقوں میں بیضہ دانوں سے نکل آنے والے انڈوں کو بارور کرنے نکل پڑتے ہیں۔اس کامطلب یہ ہوا کہ انسان نے جو سپرم بینک گزشتہ پچیس سال میں انتہائی جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے بنائے انہیں چیونٹی لاکھوں سال سے استعمال کررہی ہے۔
کارکن چیونٹیوں کی قربانی
ملکہ چیونٹی انڈے دیتی ہے جن سے نکلنے والے بچوں کو گھروندے میں بنے مخصوص خانوں میں رکھا جاتاہے۔ اگر ان خانوں میں درجہ حرارت اوررطوبت کی صورت حال کسی وجہ سے مناسب نہ رہے تو کارکن چیونٹیاں انہیں اٹھا کر زیادہ مناسب جگہ پرلے جاتی ہیں۔یہی صورت حال انڈوں کے ساتھ ہے۔ کارکن انڈوں کو دن کے وقت گھروندے کی سطح پرلے جاتی ہیں تاکہ انہیں سورج کی گرمی اورروشنی میسر رہے۔ بارش کی صورت میں اوررات ہونے پر یہی انڈے اندر منتقل ہو جاتے ہیں۔انڈوں اور لاروے کی دیکھ بھال پر مامور چیونٹیاں آپس میں مزید تقسیم ِکار کر لیتی ہیں۔ان میں سے کچھ کی ذمہ داری لاروے کی جگہ تبدیل کرناہوتاہے۔کچھ ان کے لیے خوراک تلاش کرتی ہیں جو ان کے نظام ہضم سے مطابقت رکھتی ہے۔ کچھ گھروندے کے اس خاص خانے کا درجہ حرارت مناسب حدود کے اندر رکھنے کابندوبست کرتی ہیں۔انسان نے دیواروں میں غیر موصل لگا کر درجہ حرارت پر قابو رکھنے کا طریقہ بہت دیر میں سیکھا۔ چیونٹیاں اس کا استعمال لاکھوں سال سے کررہی ہیں۔
نتیجہ
ان سارے مشاہدات کا حاصل کیا ہے ؟اس کا جواب سادہ اورایک ہی ہے۔ اگر ان جانوروں کو آگہی نہیں کہ وہ کیا کررہے ہیں تودراصل ا ن کے سارے افعال ہمیں کسی اورا رفع اوراعلیٰ ذہن سے متعارف کروانے کا ذریعہ ہیں۔جس خالق نے چیونٹی کو تخلیق کیا اوراس سے ایسے کام لیے جو بظاہر اس کی استطاعت سے بہت بڑے ہیں تودراصل وہ ان کے ذریعے اپنا وجود اوراپنی تخلیقی عظمت کا اظہار کر رہا ہے۔ چیونٹی دراصل ازلی القا کے تحت کام کررہی ہے اور اس سے جو کچھ سرزد ہورہا ہے دراصل اس کے خالق کی دانش کاعکاس ہے۔(3)
……………………………………………………………….
حواشی
(1)۔ النمل ، 27:17-18
(2)۔ قرآن اینڈ ماڈرن سائنس ، از ڈاکٹر ذاکر نائیک ،صفحہ 40
(3)۔ چیونٹی ایک معجزہ ۔ ہارون یحیٰی
0 comments:
Post a Comment