Ahmed Sajjad Hashemy

Friday, September 30, 2011

پاکستان کو امریکی دھمکیاں اور ہمارے سیاستدانوں کے رویے


 امریکی فوج نے ایک بار پھر الزام لگایا ہے کہ پاکستان افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے اور حقانی گروپ آئی ایس آئی کی اصل طاقت ہے یہی لوگ افغانستان میں دہشت گردوں کو بھیج رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکی سفارتخانے پر حملے میں بھی حقانی گروپ ملوث ہے جس کی آئی ایس آئی نے بھر پور مدد کی۔ پاکستان خطے میں اپنی پوزیشن اور اقتصادی صورتحال کو لاحق خطرات ذہن میں رکھے،پاکستان کی جانب سے بار بار کی تردید کے باوجود امریکی فوج کے سر براہ مائیک مولن نے جمعرات کو امریکی سینیٹرز کے سامنے بیان دیتے ہوئے الزام لگایا کہ پاکستان میں حقانی گروپ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی اصل طاقت ہے اور افغانستان میں امریکی فوجوں کو نشانہ بنانے میں حقانی گروپ ہی ملوث ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی حقانی گروپ کی بھر پور مدد کر رہی ہے۔
ایڈمرل مائیک مولن نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ انتہاء پسندی اور تشدد کو بطور ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے پاکستان کی حکومت خصوصاً پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی ناصرف پاک امریکہ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کو خطرات میں ڈال رہی ہیں بلکہ خطے میں باوقار قوم کے طور پر اپنے اثرورسوخ کو بھی داؤ پر لگا رہے ہیں،انہوں نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردوں کو بھیج کر پاکستان اپنی قومی سلامتی اور خطے میں اپنی پوزیشن کو خطرے میں ڈال رہا ہے اس لیے پاکستان کو بیرونی ساکھ اور اقتصادی صورتحال کو لاحق خطرات کوذہن میں رکھنا ہو گا۔
واضح رہے کہ مائیک مولن اور امریکی وزارت دفاع کی جانب سے پاکستان پر رواں ہفتے سے شدید الزامات عائد کیے جا رہے ہیں اور پاکستان کے اندر سخت کارروائی کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں جس پر پاکستان کے دفتر خارجہ سمیت تمام اعلیٰ حکام نے امریکی الزامات کی مکمل تردید کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد قرار دیاہے تاہم پاکستان کی جانب سے بار بار تردید کے باوجود امریکی حکام کی جانب سے پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کی حمایت کے الزامات لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔
جبکہ دوسری جانب وزیر اعظم کے دورہ چارسدہ کے بعد اے این پی کی طرف سے ایم کیو ایم کے لئے خیرسگالی کے جذبات پر مبنی بیان کے آتے ہی دونوں جماعتوں کے درمیان بداعتمادی اورمخالفت کی برف پگھلنے لگی ہے اور اگلے مرحلے میں ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین نے دوقدم آگے بڑھتے ہوئے اپنا وہ الزام جس میں انہوں نے اے این پی پر امریکہ سے لاکھوں ڈالر لینے کی بات کی تھی نہ صرف واپس لے لیا ہے  بلکہ انہوں نے اپنے اس بیان پر اے این پی کی قیادت او رکارکنان سے معذرت بھی کی ہے، جس سے اُن کی پریس کانفرنس کے غیرسنجیدہ ہونے پر مزید سوالات اُٹھائے جا رہے ہی۔ الطاف حسین کی ا س معذرت کااسی دن اے این پی کے قائد اسفندر یار ولی خان نے اگر ایک طرف خیرمقدم کیا تو دوسری جانب انہوں نے بھی ایم کیو ایم کے خلاف لگائے جانے والے اپنے الزامات واپس لینے کااعلان کر کے دونوں جماعتوں کے اچھے تعلقات کو جمہوریت کے لئے ناگزیر قرار دیا۔اور اب جبکہ دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے پر عائد الزامات واپس لے لئے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی الزامات عائد کئے گئے تھے وہ سب غلط تھے۔ کیا یہ پاکستان کی بدقسمتی نہیں کہ ایک نازک وقت میں ہمارے سیاست دان اس قسم کی روش پر چل رہے ہیں، جبکہ عوام ایسی قیادت کی راہ دیکھ رہی ہے جو اُسے گھمبیر مسائل سے نجات دلا سکے۔
  ایم کیوایم کی حکومت میں واپسی کی اطلاعات پر اے این پی کاتاحال کوئی تازہ ردعمل سامنے نہیں آیا حالانکہ چند دن پہلے تک اے این پی اس بات کابرملا اظہار کررہی تھی کہ ایم کیو ایم کی حکومت میں واپسی پر ا س کے نہ صرف شدید تحفظات ہیں بلکہ اس نے ایم کیوایم کی دوبارہ حکومت میں شمولیت پر حکومت سے علیحدگی کی دھمکی بھی دی تھی۔اب اچانک ان دونوں جماعتوں کے رویوں میں یوٹرن اوران دونوں جماعتوں کا اپنے اپنے الزامات واپس لینے سے بظاہر کراچی میں کسی حد تک امن کی بحالی کی امید تو پیدا ہو گئی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان دونوں جماعتوں نے اب تک ایک دوسرے کے خلاف غداری ، وطن دشمنی، امریکی ایجنٹ ہونے اور کراچی کے قتل وغارت میں ملوث ہونے کے جوسنگین الزامات عائد کئے ہیں ان کا کیا بنے گا ۔ ان دونوں جماعتوں کواقتدار کے کیک میں ان کی خواہش کے مطابق حصہ ملنے کے بعداب اگریہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو معاف کرکے دوبارہ بغلگیر ہوتی ہیں تو اس پر توان دونوں جماعتوں کے ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے شاید کسی کو کوئی خاص اعتراض نہیں ہوگالیکن سوال یہ ہے کہ اس دوران کراچی میں جتنا خون بہہ چکاہے اور ا س خون ریزی سے جتنے گھر اجڑ چکے ہیں اور اربوں روپے کاجو اقتصادی نقصان ہوچکاہے اس کا مداوا کون کرے گا.

0 comments:

Post a Comment

Share

Twitter Delicious Facebook Digg Stumbleupon Favorites More