ہٹلر کو ایک کروڑ دس لاکھ افراد کے قتل عام کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے جن میں ساٹھ لاکھ یہودی بھی شامل ہیں۔ یہودی آج بھی اس عظیم قتل عام کو ہولوکاسٹ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ایڈولف ہٹلر ایک نہایت ذہین، شاطر، عیار، ظالم اور اذیت پسند خصوصیات کا حامل شخص تھا۔ اُس کی شخصیت کو کرشمائی شخصیت کہا جاتا ہے۔ ہٹلر کو ایک کروڑ دس لاکھ افراد کے قتل عام کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے جن میں ساٹھ لاکھ یہودی بھی شامل ہیں۔ یہودی آج بھی اس عظیم قتل عام کو ''ہولوکاسٹ'' کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس قتل عام کے وقت ہٹلر نے دنیا کو پیغام دیا تھا کہ یہودیوں کی ایک بڑی تعداد کو اُس نے ختم کر دی ہے جو تھوڑے بہت بچ گئے ہیں اُن کی نسل کشی کریں ورنہ یہ آپ کا جینا حرام کر دینگے۔ آج ایڈولف ہٹلر کی یہ بات حرف بہ حرف سچ ثابت ہورہی ہے۔ یہی یہودی آج امریکہ سمیت دنیا کی سیاست ، سفارت، تجارت ، معیشت اور میڈیا پر قابض ہیں۔ امریکہ، یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک میں موجود ان یہودیوں نے امریکہ کی آشیرباد سے ایک الگ ریاست کیلئے جدوجہد شروع کی جس کی وجہ سے آج دنیا کے نقشے پر ایک ناجائز یہودی ریاست ''اسرائیل'' موجود ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ اس وقت یہودیوں کی پہنچ دنیا کے تمام بڑے اداروں معیشت، سیاست، تجارت اور میڈیا تک ہے۔ امریکا اور یورپ میں یہودی اس طرح پنجے گاڑھ چکے ہیں کہ وہاں کی حکومتیں بھی ان کے ہاتھوں کھلونا بنی ہوئی ہیں۔ انٹرنیٹ میڈیا کو بھی اسرائیل اور امریکا ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ انہی میں سوشل نیٹ ورک فیس بُک بھی شامل ہے جس کے ذریعے اسرائیلی خفیہ ایجنسی ''موساد'' نے جاسوسی کا نیٹ ورک پھیلا رکھا ہے۔ فیس بُک کا بانی نوجوان دنیا کا ارب پتی یہودی ہے۔ انٹرنیٹ پر فیس بُک ایک ایسی سہولت ہے جس کے ذریعے آپ اپنے دوستوں، عزیزوں اور چاہنے والوں سے رابطہ میں رہ سکتے ہیں۔بظاہر یہ سائٹ ہر ایک کے لئے فری ہے اور یہاں کوئی بھی اپنا اکائونٹ بنا کر سماجی روابط کو فروغ دے سکتا ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں بلکہ اس کے ذریعے صیہونی جاسوسی کے ساتھ ساتھ ہزاروں ڈالر روزانہ کما رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت فیس بُک استعمال کنندگان کی تعداد پچاس کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے۔ دنیا میں صرف تین ممالک چین، بھارت اور روس ایسے ہیں جن کی آبادی اس ویب سائٹ کے صارفین سے زیادہ ہے۔ ان پچاس کروڑ صارفین میں سے تقریباً دو کروڑ عرب جبکہ پچیس لاکھ پچاس ہزار سے زیادہ پاکستانی ہیں۔ پوری مسلم دنیا کے تئیس سے چوبیس کروڑ مسلمان فیس بُک استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح اس ویب سائٹ کے پچاس کروڑ صارفین میں سے تقریباً آدھے مسلمان ہیں جبکہ باقی آدھے صارفین وہ ہیں جو دیگر مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ جن میں عیسائی، یہودی، ہندو، بدھ مت اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ فیس بُک اپنی مقبولیت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اربوں ڈالر کے اشتہارات بُک کرتی ہے۔ اشتہاری کمپنیاں اس سائٹ کو روزانہ وزٹ کرنے والوں کے حساب سے ادائیگی کرتی ہیں۔ جس طرح کسی اخبار کو اُس کی سرکولیشن کے حساب سے اشتہارات ملتے ہیں اسی طرح جن ویب سائٹس پر ٹریفک زیادہ ہو اشتہاری کمپنیاں وہاں زیادہ دلچسپی لیتی ہیں۔ مالکان بھی اپنی ویب سائٹس پر ٹریفک بڑھانے کیلئے مختلف قسم کی سہولیت فراہم کرتے رہتے ہیں۔ آپ کا آئی پی ایڈریس ایک ایسی شناخت ہوتی ہے جس کے ذریعے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آپ کا تعلق کہاں سے ہے۔ بظاہر فیس بُک ہر صارف کیلئے فری ہے لیکن کسی ایک اشتہار پر کلک کریں تو اشتہاری کمپنیوں کی طرف سے فیس بُک انتظامیہ کو ادائیگی ہو جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف پاکستانیوں کے توسط سے فیس بُک کو روزانہ ساٹھ لاکھ ڈالر سے زائد ریونیو حاصل ہو رہا ہے۔ فیس بُک کے بارے میں کئی چشم کُشا انکشافات سامنے آ چکے ہیں کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی ''موساد'' اس کے ذریعے مخالفین کے بارے میں معلومات کے حصول اور لوگوں کے ذہنوں تک رسائی حاصل کرتی ہے۔ فرانس سے شائع ہونے والے یہودی روزنامے ''لوماگازین دویسرائیل'' نے ایک سنسنی خیز انکشاف کیا کہ ''موساد'' زیادہ تر عرب ممالک اور دیگر اسرائیل دشمن ممالک کے صارفین پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کیلئے فیس بُک کو اُن کی سرگرمیوں اور سوچ و فکر کے تجزیئے کیلئے استعمال کرتی ہے۔ فارس نیوز ایجنسی کے مطابق اخبار نے بعض مستند دستاویزات کی روشنی میں فیس بُک کے پس پردہ حقائق سے پردہ اُٹھا کر نئے حقائق کا انکشاف کیا ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ''ٹارگٹ ممالک'' میں جاسوسی کرنے کی غرض سے فیس بُک کی بنیاد رکھی گئی۔ اخبار لوماگازین نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی ریاست عرب اور دیگر اسلامی ممالک میں موجود صارفین کے ذاتی کوائف فیس بُک کے ذریعے حاصل کرتی ہے اور پھر یہ معلومات موساد، شین بیتھ اور دیگر ایجنسیوں کیلئے کام کرنیوالے علم النفس کے ماہرین کے سپرد کی جاتی ہیں۔ فرانس کی ایک یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر اور ''انٹرنیٹ کے خطرات'' نامی کتاب کے منصف نیروکس کا کہنا ہے کہ فیس بُک اسرائیلی نفسیات دانوں پر مشتمل ایک انٹیلی جنس نیٹ ورک ہے جو عرب دنیا اور خاص کر اسرائیل فلسطین تنازعے سے متعلق ممالک پر اپنی توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس کے ذریعے مردوں کی جاسوسی کے لئے خواتین کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اپریل 2008ء میں اردن کے ایک روزنامہ الحقیقہ الدولیہ میں ''پوشیدہ دشمن'' کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ فیس بُک اور اس طرح کے دیگر سوشل نیٹ ورکس پر صارفین کی معلومات اکٹھی کی جاتی ہے اور پھر انہیں جاسوسی کے لئے ہدف بنایا جاتا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ یہ بہت ہی خطرناک رحجان ہے کہ لوگ کسی دوسرے کی باتوں پر اعتماد کرتے ہوئے فیس بُک پر اپنی ذاتی معلومات کا اظہار کرتے ہیں۔یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اسرائیل اور امریکا انٹرنیٹ اور فیس بُک جیسے سوشل نیٹ ورک کو جدید معلومات، تعلقاتِ عامہ، جاسوسی، فوجیوں اور ان کے خاندانوں کے درمیان رابطوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ عالمی سیاست میں بھی فیس بُک کا نام کوئی اجنبی نہیں ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کے سیاست دان، کھلاڑی، فنکار اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی مہم کو آگے بڑھانے کے لئے اس کا استعمال کرتے ہیں۔ اس وقت بھی فیس بُک پر پرویز مشرف انتہائی مقبول ترین پاکستانی شخصیت ہیں جبکہ دیگر سیاست دان بھی اس سوشل نیٹ ورک کے ذریعے اپنے مداحوں سے رابطے میں ہیں۔ صرف سیاست ہی نہیں بلکہ پاکستان کی بہت سی اہم شخصیات بھی اپنے نظریات کے فروغ، مداحوں سے رابطہ کیلئے فیس بُک کا سہارا لئے ہوئے ہیں۔ فرانس کے یہودی اخبار کی رپورٹ کے مطابق فیس بُک سے صیہونی ریاست کے دشمن ممالک میں ہونے والے سیاسی واقعات کے بارے مفید معلومات حاصل ہوتی ہیں ۔صیہونی ذرائع ابلاغ کی بنیادی خواہش اور اصل ہدف یہ ہے کہ اسلام کو ایک دہشت گرد مذہب کے طور پر پیش کیا جائے۔ اسلامی تعلیمات کو اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ عام آدمی کے ذہن میں یہ تاثر اُبھرے کہ اسلام ایک خونخوار مذہب ہے۔ 20مئی 2010کو فیس بُک پر توہین آمیز خاکوں کا مقابلہ ہوا جو عالم اسلام کیلئے ایک سیاہ دن تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے جذبات ابھارنے کے لئے 11ستمبر 2010ء کو ''قرآن جلانے کا دن'' بھی منایا گیا۔ فیس بُک کی جاسوسی بارے رپورٹس سامنے آنے کے باوجود یہ سائٹ آج بھی ہر طرح کی پابندیوں سے آزاد ہے۔ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد جب فیس بُک پاکستان میں چند دن بند رہی اس دوران اسے کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ اگر مسلمان صارفین فیس بُک کا مکمل بائیکاٹ کر دیں تو اسے روزانہ اکیاون کروڑ ستر لاکھ ڈالر کا نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی، ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اگر فیس بُک اور دیگر قابل اعتراض مواد رکھنے والی ویب سائٹس کی پاکستان میں آنیوالی ٹریفک پر ایک فلٹر لگا دیا جائے تو یہ نہ صرف پوری قوم بلکہ اُمت مسلمہ پر بھی عظیم احسان ہوگا۔ اس طرح ہمارا نوجوان ''دشمن'' کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچ جائے گا اور یقینا اس میں ملک کا مفاد بھی پنہاں ہے۔ پاکستان، اس کی مسلح افواج، انٹیلی جنس اداروں سے محبت کرنیوالا کوئی بھی محب وطن یہ ہرگز نہیں چاہے گا کہ ملک کی سالمیت پر کوئی آنچ آئے۔ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بھی اس کا سخت نوٹس لینا چاہئے اور پاکستان کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے ہر ممکن اقدامات کرنے چاہئیں۔ |
0 comments:
Post a Comment