امریکی پینٹاگون کی پاکستان کے خلاف دوسرے آپشنز استعمال کرنے کی دھمکی
امریکی پینٹاگون کے ایک سینئر اہلکار مارک سپرٹ نے باور کرایا ہے کہ اگر پاکستان نے شدت پسندوں کے محفوظ ٹھکانوں اور سرحد پار سے دہشت گردی روکنے کے اقدامات نہ کئے تو ہمارے پاس دوسرے آپشنز موجود ہیں۔ امریکی سینٹ کمیٹی کے سامنے اپنے بیان میں مارک سپرٹ نے کہا کہ سرحد پار سے افغانستان اور ہماری فورسز پر حملے روکنا پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ ان کے بقول دہشت گرد گروپوں کے پاکستان میں موجود محفوظ ٹھکانوں اور وہاں سے دہشت گردوں کو ملنے والی حمایت سے افغانستان میں امریکی فورسز، نیٹو کے مشن اور افغانستان کے استحکام کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی فوجی قیادت کو شدت پسند گروپوں کے حوالے سے پسند ناپسند کی پالیسی نہیں اپنانی چاہئے اور سب کے خلاف بلاتفریق کارروائی کرنی چاہئے، اس سلسلہ میں پاکستان کو اپنی ذمہ داریوں کا مکمل احساس ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین کسی تصادم کو روکنا بھی اہم سٹرٹیجک مفاد ہے۔
امریکی امداد کی خاطر کیری لوگر بل کے ذریعے قبول کی گئی کڑی شرائط کا یہ شاخسانہ ہے کہ امریکی فوجی و سول حکام میں سے ہر کوئی پاکستان کے سول اور فوجی حکام سے ڈومور کے تقاضے کرتا اور امریکی مفادات کے تحت دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں پاکستان کی عظیم جانی و مالی قربانیوں کو نظر انداز کر کے اسکے کردار پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتا نظر آتا ہے، بالخصوص اسامہ بن لادن کے خلاف -2 مئی کے ایبٹ آباد اپریشن کے بعد تو پاکستان کی سالمیت کے خلاف امریکیوں کی زبانیں دراز اور عزائم جارحانہ ہو گئے ہیں۔ امریکی سینٹ کے ایوان نمائندگان میں حکمران ڈیمو کرٹیک اور سابق حکمران ری پبلکن ارکان مینڈکوں کی طرح اُچھلتے کودتے اور امریکی پیدا کردہ دہشتگردی کا گند پاکستان پر ڈالتے نظر آ تے ہیں، کبھی پاکستان کی فوجی اور سول امداد بند کرنے کی قراردادیں لائی جا تی ہیں اور کبھی خود کارروائی کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ہلیری کلنٹن اپنے ملک میں ہوں، افغانستان یا بھارت کے دورے پر ہوں یا پاکستان میں موجود ہوں۔انکی زبان پر پاکستان کے کردار کی گردان چڑھی نظر آتی ہے۔ امریکی افواج کے سابق سربراہ ایڈمرل مائیک مولن نے اپنے منصب سے سبکدوش ہوتے وقت بھی پاکستان پر ”نظرِ کرم“ مرکوز کئے رکھی اور اسکے امریکی فرنٹ لائن اتحادی ہونے پر بھی شک و شبہ کا اظہار کیا جبکہ افغانستان میں تعینات امریکی، نیٹو کمانڈرز کےلئے تو پاکستان کو براہ راست کارروائی کی دھمکیاں دینا بہترین مشغلہ بن چکا ہے اور اب رہی سہی کسر پینٹاگون کے سینئر اہلکار نے نکال دی ہے جنہوں نے پاکستان کے خلاف دوسرے آپشنز استعمال کرنے کی دھمکی دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔ یہ ہے وہ صلہ جو جرنیلی آمر جنرل مشرف کی جانب سے محض اپنے اقتدار کے استحکام کی خاطر ایٹمی طاقت کے حامل آزاد اور خود مختار پاکستان کو امریکی غلامی میں دینے اور پھر موجودہ سول حکمرانوں کی جانب سے اس غلامی میں مزید تابعداری کا عنصر شامل کرنے کے عوض ہمیں مل رہا ہے۔
اگر ہماری قیادتوں میں قومی اور ملی غیرت، حمیت کی کوئی رمق موجود ہو تو آج ہم امریکی جھڑکیاں کھاتے اسکے آگے ناک رگڑتے کیوں نظر آئیںمگر جب ہماری قیادتوں کی جانب سے خود ہی اپنی سرزمین پر حقانی نیٹ ورک کےخلاف کارروائی کی یقین دہانی کرا کے پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے بارے میں امریکی الزامات کی تصدیق کی جا رہی ہو تو پھر ان مبینہ محفوظ ٹھکانوںکے خلاف کارروائی کی آڑ میں امریکہ کو ہماری سالمیت پر حملہ آور ہونے کا کیوں موقع نہیں ملے گا۔ اگر امریکی افواج کے مرکز پینٹاگون کی جانب سے ہمارے خلاف دوسرے آپشنز استعمال کرنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے تو سادہ سی سادہ زبان میں بھی اسے پاکستان کی سالمیت پر حملہ آور ہونے کی امریکی منصوبہ بندی سے ہی تعبیر کیا جائے گا جبکہ ہماری موجودہ حکومتی قیادتیں اس منصوبہ بندی کے آگے سر تسلیم خم کئے کھڑی نظر آتی ہیں جس کا عندیہ دورہ پاکستان کے بعد امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے امریکی میڈیا کے روبرو اس بیان سے بھی ملتا ہے کہ انہوں نے دہشت گردوں بالخصوص حقانی نیٹ ورک کے ٹھکانے ختم کرنے کےلئے پاکستان کو اپنی زبان میں اس کا کردار بتا اور سمجھا دیا ہے۔ بعد ازاں وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی اور وزیر خارجہ حنا کھر نے بھی یہ کہہ کر ہلیری کلنٹن کے دعوں کی تصدیق کی کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے معاملہ میں پاکستان اور امریکہ مشترکہ حکمتِ عملی پر متفق ہو گئے ہیں۔
یہ طرفہ تماشہ ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت کے تو دہشت گردی کے خاتمہ سے متعلق امریکی تقاضوں پر سخت تحفظات ہیں، آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی امریکی ڈکٹیشن پر شمالی وزیرستان میں اپریشن سے معذرت بھی کر چکے ہیں اور امریکی فوجی و سول حکام کو باور بھی کرا چکے ہیں کہ وہ پاکستان کو عراق یا افغانستان نہ سمجھیں اور اس کی سالمیت کےخلاف کسی کارروائی سے پہلے دس بار سوچ لیں مگر ہماری اعلیٰ سول قیادت امریکہ کو نہ صرف خود کارروائی کرنے کا یقین دلا رہی ہے بلکہ امریکہ کو بھی اس کارروائی کی اجازت دینے کا عندیہ دے رہی ہے چنانچہ ہماری سول قیادتوں کی اس کمزوری سے صرف امریکہ ہی نہیں اس کے کٹھ پتلی افغان صدر حامد کرزئی کو بھی زبان درازی کاموقع مل رہا ہے جو پروفیسر برہان الدین ربانی کے قتل کے پس منظر میں پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی پر مائیک مولن کے لہجے میں ہی الزام دھرتے نظر آئے جبکہ سرحد پار سے افغانستان کے اندر دہشت گردی کی مبینہ کارروائیوں کو روکنے کا پاکستان سے تقاضا کرنے کے معاملہ میں بھی واشنگٹن اور کابل انتظامیہ یکسو ہے جنہیں افغانستان سے سینکڑوں کی تعداد میں پاکستان میں داخل ہونے والے مبینہ دہشت گردوں اور فی الحقیقت امریکی افغانی ایجنٹوں کے پاکستان کی چیک پوسٹوں پر اب تک کے حملے نظر ہی نہیں آتے جبکہ ان حملوں میں پاکستان سکیورٹی فورسز کے بیسیوں ارکان اور عام شہریوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔
ہمارے لئے اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو گا کہ افغان مزاحمت کاروں کی کارروائیوں سے نجات پانے کےلئے واشنگٹن اور کابل انتظامیہ تو ان مزاحمت کاروں (دہشت گردوں) کے ساتھ امن مذاکرات کا راستہ اختیار بھی کر چکی ہے اور گزشتہ روز افغان لویہ جرگہ نے بھی طالبان کے ساتھ امن مذاکرات اور امریکہ سے سٹرٹیجک معاہدے کی منظوری دے دی ہے مگر امریکہ ہماری سکیورٹی فورسز کو نہ صرف ملک کے اندر فوجی اپریشن کی صورت میں اپنے ہی شہریوں سے برسر پیکار رکھوانا چاہتا ہے بلکہ انہیں افغانستان میں بھی نیٹو فورسز کا کردار سونپنے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھا ہے جس کا نتیجہ ہماری تباہی و بربادی کے سوا کچھ برامدنہیں ہو گا۔ ہماری سکیورٹی فورسز کے اپریشن اور امریکی ڈرون حملوں کے ردعمل میں ہی تو ہماری دھرتی پر خودکش بمبار پیدا ہوئے ہیں اور ہم چاروں جانب سے بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں آئے ہیں، جس طرح گزشتہ روز اورکزئی ایجنسی کے مختلف علاقوں میں بے دریغ بمباری کر کے دہشت گردوں کے نام پر شہریوں کا قتل عام کیا گیا اور ان کے گھروں اور کاروبار کو تباہ کیا گیا اس کے ردعمل میں خودکش بمبار ہی جنم لیں گے۔ ہمارا امن و سکون تو اسی پس منظر میں غارت ہوا ہے۔
اس تناظر میں ہماری حکومتی اور عسکری قیادتوں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ ہماری جانب سے امریکی مفادات کی جنگ سے باہر نکلنا اور پینٹاگون کی خود کارروائی کی دھمکیوں کا اسی کے لہجے میں جواب دینا ملکی اور قومی مفادات سے مطابقت رکھتا ہے یا امریکی مفادات کی جنگ میں کود کر خود کو جھلسانا اور امریکی غلامی کو قبول کئے رکھنا ہمارے مفاد میں ہے؟ غیور قومیں بہرصورت اپنے قومی مفادات پر کوئی سودا نہیں کیا کرتیں۔
بے نظیر کے قاتل اور رحمن ملک
وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ بینظیر بھٹو قتل کیس میں مشرف کے علاوہ اور لوگ بھی ملوث ہیں سازش ایک غیر سرکاری ادارے میں تیا رہوئی قاتل کن گاڑیوں میں آئے کس نے استقبال کیا کہاں کپڑے تبدیل کئے گئے یہ سب وقت آنے پر بتاﺅں گا۔ محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان کی سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن تھیں انکے قتل سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ۔ پاکستان آنے سے قبل بینظیر بھٹو نے اپنی ایک دوست کو ای میل کے ذریعے اپنی زندگی کولاحق خطرات سے آگاہ کیا اور سانحہ کارساز کراچی کے بعد بینظیر بھٹو نے ایک خط میں سابق صدر پرویز مشرف اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی سمیت 4افراد کو اپنا قاتل نامزد کیا تھا لیکن 27دسمبر 2007ءکو لیاقت باغ میں قتل کیے جانے کے بعد عام انتخابات میں اقتدار جب پیپلز پارٹی کے پاس آیا تو انہیں چاہئے تھا کہ سب سے پہلے اپنی قائد کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچاتے لیکن انہوں نے قائد کے نامزد قاتل پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر دیکر ملک سے بھگایا اور مفاہمت کی چادر کو دراز کرتے ہوئے قاتل لیگ کو قابل لیگ بنایا اور اسے کابینہ میں شامل کرلیاعرصہ چار سال ہونے کو ہے آج تک پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ اپنی قائد کے قاتلوں کو گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ وزیر داخلہ رحمن ملک کے بقول اگر انہیں سب معلوم ہے کہ مشرف کے علاوہ قاتل کون ہیں تو عوام کو آگاہ کیاجائے سازش سے پردہ اٹھا کر بینظیر بھٹو کی جماعت سے وفاداری کا ثبوت فراہم کیاجائے۔ پوری قوم اضطراب میں مبتلا ہے ،ایک لیڈر کو دن دھاڑے قتل کردیاگیا، قاتل کن گاڑیوں میں آئے استقبال کرنیوالے کون ہیں ،کپڑے کہاں تبدیل کیے گئے، اگر اتنی زیادہ معلومات رحمن ملک کے پاس ہیں تو انہیں پکڑ کر کیفر کردار تک کیوں نہیں پہنچایاجاتا۔ صدر آصف علی زرداری نے بھی بینظیر بھٹو کی پہلی برسی پر یہی دعویٰ کیا تھا کہ مجھے پتہ ہے،شہید بی بی کے قاتل کون ہیں آج پیپلز پارٹی کے پاس اقتدار محترمہ کے خون کے طفیل ہے۔صدر زرداری کا اقتدار اوررحمن ملک کی وزارت بھی بی بی کے خون کی مرہون منت ہے، پاکستانی عوام یہ قیاس کرنے میں بجا ہوں گے کہ جو پارٹی لیڈر یا وزیر معلومات ہونے کے باوجود اپنی قائد کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کرتا وہ نہ تو ملک کا مخلص ہوسکتا ہے اور نہ ہی اپنی جماعت کا خیر خواہ،اب پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی ذمہ داری ہے کہ رحمن ملک سے اپنی قائد کے قاتلوں کا پوچھ کر انہیں قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرے کیونکہ حکومت کے ختم ہوتے ہی رحمن ملک تو لندن اپنے ملک بھاگ جائینگے اور ایک عظیم لیڈر کے قتل کا معمہ حل نہیں ہوسکے گا۔پیپلز پارٹی حکومت ساڑھے تین سال کے عرصے میں اپنی لیڈر کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کرسکی تو کیا بی بی کے قاتلوں کو بے نقاب کرنے کا وقت پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد آئیگا؟ اس معاملے میں عوام کو بے وقوف سمجھا جائے نہ بنایا جائے۔
کہاں ہیں حکومت کی اقتصادی اصلاحات؟
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ ”پاکستان نے آئی ایم ایف سے کوئی نیا قرضہ نہیں مانگا، حکومت اقتصادی اصلاحات لا رہی ہے، ہمارے مشکل فیصلوں کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں“، دوسری طرف پاکستان میں آئی ایم ایف مشن کے سربراہ عدنان مزاری نے کہا ہے کہ ”پاکستان میں سب اچھا نہیں ہے،ٹیکسوں کی شرح بڑھانا ہوگی“۔ دونوں صاحبان اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔موجودہ حکومت کو برسرِ اقتدار آئے تقریباً پونے چار سال ہوگئے ہیں، حکمرانوں نے اقتصادی اصلاحات او رمعاشی تبدیلیاں لانے کے بڑے دعوے کئے تھے لیکن آج حالت یہ ہے کہ معاشی ابتری کی بدولت عام آدمی کا جینا دوبھر ہوگیا ہے، کاش کہ وزیر خزانہ حکومت کے ”مشکل فیصلوں کے نتیجے میں ظہور میں آنے والے مثبت نتائج “کی کوئی ادنیٰ سی تفصیل ہی بتا دیتے۔ وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ برآمدات بڑھی ہیں ،بیرونی ترسیلات میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود ملکی معیشت مشکل ترین صورتحال سے دوچار ہے،وزیر خزانہ جن اقتصادی اصلاحات کا ذکر کر رہے ہیں اُن میں سرفہرست ٹیکس نیٹ ورک کووسیع کرنا ہے،ا س وقت ملک میں ٹیکس دہندگان کی تعداد دو کروڑ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے اور ان میں تقریباً نوے فیصد ملازمت پیشہ لوگ ہیں یا چھوٹا کاروباری طبقہ۔ جن کے پاس بے تحاشا دولت ہے، انہوں نے ٹیکس بچانے یا چوری کرنے کے بڑے محفوظ راستے اپنا رکھے ہیں۔ اگر ہم ٹیکسوں کی وصولی کا ایماندارانہ نظام تشکیل پانے میں کامیاب ہوجائیں اورہمارے ہاں کا ہر ادنیٰ، اعلیٰ، جس کے ذمے جو ہو، ایمانداری سے قومی خزانے کو ادا کرنے لگے تو ملک کی ساری اقتصادی مشکلات دور ہوسکتی ہیں اور ہم پر کشکول برداری کا جو ٹھپہ لگا ہے اُس سے نجات مل سکتی ہے لیکن یہ معرکہ کوئی ایسی قیادت ہی سرانجام دے سکتی ہے جو ملک و قوم سے مخلص ہو!
ایران نے پاکستان کو بجلی کی فراہمی تین گنا بڑھادی
ایران نے پاکستان کو برآمد کی جانے والی بجلی کی مقدار میں تین گناہ اضافے کا فیصلہ کیا ہے،ایرانی وزیر نے کہا ہے بجلی کی برآمد میں اضافہ مرحلہ وار ہوگا، پہلے سو میگا واٹ فراہم کی جارہی ہے۔ یہ نہایت خوش کن خبر ہے کہ پاکستان ایران سے بجلی درآمد کرنے پر راضی ہوگیا ہے اور اس طرح ایران جیسا برادر اسلامی ملک پاکستان کے توانائی بحران کوکم کرنے میں نمایاں کردار ادا کریگا جس کیلئے پاکستان کے عوام حکومت ایران کے شکرگزار ہیں، یہ بجلی سستی ہوگی اور توقع کی جاسکتی ہے کہ ہمارے بجلی کے بلوں میں بھی قدرے کمی واقع ہوگی اور لوڈشیڈنگ میں بھی اضافے سے خلاصی ملے گی۔ پاکستان اس درآمد کے ساتھ ہی اپنی ہائیڈل بجلی پیدا کرنے کے پراجیکٹوں پر بھی کام شروع کرے اور توانائی کے معاملے میں امریکی مداخلت کو ہرگز قبول نہ کرے، اگر ایران سے بجلی درآمد کی جارہی ہے تو گیس پائپ لائن پر بھی کام شروع کردیاجائے اور کسی کے روکے پر یہ سستا اور مفید ترین منصوبہ ترک نہیں کرناچاہیے، ایرانی گیس پائپ لائن ہمارے دروازے پر ہے اب اس کو اندر لے آنا ہمارا کام ہے،اس اقدام سے اوگرا کو آئے روز گیس کے نرخوں میں اضافہ بھی نہیں کرنا پڑیگا، ایران کی یہ بڑی نیکی ہے کہ وہ سستی بجلی اور گیس دینے پر آمادہ ہے ہماری حکومت کو اس پیشکش سے فائدہ اٹھانے میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔
امریکی پینٹاگون کے ایک سینئر اہلکار مارک سپرٹ نے باور کرایا ہے کہ اگر پاکستان نے شدت پسندوں کے محفوظ ٹھکانوں اور سرحد پار سے دہشت گردی روکنے کے اقدامات نہ کئے تو ہمارے پاس دوسرے آپشنز موجود ہیں۔ امریکی سینٹ کمیٹی کے سامنے اپنے بیان میں مارک سپرٹ نے کہا کہ سرحد پار سے افغانستان اور ہماری فورسز پر حملے روکنا پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ ان کے بقول دہشت گرد گروپوں کے پاکستان میں موجود محفوظ ٹھکانوں اور وہاں سے دہشت گردوں کو ملنے والی حمایت سے افغانستان میں امریکی فورسز، نیٹو کے مشن اور افغانستان کے استحکام کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی فوجی قیادت کو شدت پسند گروپوں کے حوالے سے پسند ناپسند کی پالیسی نہیں اپنانی چاہئے اور سب کے خلاف بلاتفریق کارروائی کرنی چاہئے، اس سلسلہ میں پاکستان کو اپنی ذمہ داریوں کا مکمل احساس ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین کسی تصادم کو روکنا بھی اہم سٹرٹیجک مفاد ہے۔
امریکی امداد کی خاطر کیری لوگر بل کے ذریعے قبول کی گئی کڑی شرائط کا یہ شاخسانہ ہے کہ امریکی فوجی و سول حکام میں سے ہر کوئی پاکستان کے سول اور فوجی حکام سے ڈومور کے تقاضے کرتا اور امریکی مفادات کے تحت دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں پاکستان کی عظیم جانی و مالی قربانیوں کو نظر انداز کر کے اسکے کردار پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتا نظر آتا ہے، بالخصوص اسامہ بن لادن کے خلاف -2 مئی کے ایبٹ آباد اپریشن کے بعد تو پاکستان کی سالمیت کے خلاف امریکیوں کی زبانیں دراز اور عزائم جارحانہ ہو گئے ہیں۔ امریکی سینٹ کے ایوان نمائندگان میں حکمران ڈیمو کرٹیک اور سابق حکمران ری پبلکن ارکان مینڈکوں کی طرح اُچھلتے کودتے اور امریکی پیدا کردہ دہشتگردی کا گند پاکستان پر ڈالتے نظر آ تے ہیں، کبھی پاکستان کی فوجی اور سول امداد بند کرنے کی قراردادیں لائی جا تی ہیں اور کبھی خود کارروائی کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ہلیری کلنٹن اپنے ملک میں ہوں، افغانستان یا بھارت کے دورے پر ہوں یا پاکستان میں موجود ہوں۔انکی زبان پر پاکستان کے کردار کی گردان چڑھی نظر آتی ہے۔ امریکی افواج کے سابق سربراہ ایڈمرل مائیک مولن نے اپنے منصب سے سبکدوش ہوتے وقت بھی پاکستان پر ”نظرِ کرم“ مرکوز کئے رکھی اور اسکے امریکی فرنٹ لائن اتحادی ہونے پر بھی شک و شبہ کا اظہار کیا جبکہ افغانستان میں تعینات امریکی، نیٹو کمانڈرز کےلئے تو پاکستان کو براہ راست کارروائی کی دھمکیاں دینا بہترین مشغلہ بن چکا ہے اور اب رہی سہی کسر پینٹاگون کے سینئر اہلکار نے نکال دی ہے جنہوں نے پاکستان کے خلاف دوسرے آپشنز استعمال کرنے کی دھمکی دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔ یہ ہے وہ صلہ جو جرنیلی آمر جنرل مشرف کی جانب سے محض اپنے اقتدار کے استحکام کی خاطر ایٹمی طاقت کے حامل آزاد اور خود مختار پاکستان کو امریکی غلامی میں دینے اور پھر موجودہ سول حکمرانوں کی جانب سے اس غلامی میں مزید تابعداری کا عنصر شامل کرنے کے عوض ہمیں مل رہا ہے۔
اگر ہماری قیادتوں میں قومی اور ملی غیرت، حمیت کی کوئی رمق موجود ہو تو آج ہم امریکی جھڑکیاں کھاتے اسکے آگے ناک رگڑتے کیوں نظر آئیںمگر جب ہماری قیادتوں کی جانب سے خود ہی اپنی سرزمین پر حقانی نیٹ ورک کےخلاف کارروائی کی یقین دہانی کرا کے پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے بارے میں امریکی الزامات کی تصدیق کی جا رہی ہو تو پھر ان مبینہ محفوظ ٹھکانوںکے خلاف کارروائی کی آڑ میں امریکہ کو ہماری سالمیت پر حملہ آور ہونے کا کیوں موقع نہیں ملے گا۔ اگر امریکی افواج کے مرکز پینٹاگون کی جانب سے ہمارے خلاف دوسرے آپشنز استعمال کرنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے تو سادہ سی سادہ زبان میں بھی اسے پاکستان کی سالمیت پر حملہ آور ہونے کی امریکی منصوبہ بندی سے ہی تعبیر کیا جائے گا جبکہ ہماری موجودہ حکومتی قیادتیں اس منصوبہ بندی کے آگے سر تسلیم خم کئے کھڑی نظر آتی ہیں جس کا عندیہ دورہ پاکستان کے بعد امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے امریکی میڈیا کے روبرو اس بیان سے بھی ملتا ہے کہ انہوں نے دہشت گردوں بالخصوص حقانی نیٹ ورک کے ٹھکانے ختم کرنے کےلئے پاکستان کو اپنی زبان میں اس کا کردار بتا اور سمجھا دیا ہے۔ بعد ازاں وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی اور وزیر خارجہ حنا کھر نے بھی یہ کہہ کر ہلیری کلنٹن کے دعوں کی تصدیق کی کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے معاملہ میں پاکستان اور امریکہ مشترکہ حکمتِ عملی پر متفق ہو گئے ہیں۔
یہ طرفہ تماشہ ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت کے تو دہشت گردی کے خاتمہ سے متعلق امریکی تقاضوں پر سخت تحفظات ہیں، آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی امریکی ڈکٹیشن پر شمالی وزیرستان میں اپریشن سے معذرت بھی کر چکے ہیں اور امریکی فوجی و سول حکام کو باور بھی کرا چکے ہیں کہ وہ پاکستان کو عراق یا افغانستان نہ سمجھیں اور اس کی سالمیت کےخلاف کسی کارروائی سے پہلے دس بار سوچ لیں مگر ہماری اعلیٰ سول قیادت امریکہ کو نہ صرف خود کارروائی کرنے کا یقین دلا رہی ہے بلکہ امریکہ کو بھی اس کارروائی کی اجازت دینے کا عندیہ دے رہی ہے چنانچہ ہماری سول قیادتوں کی اس کمزوری سے صرف امریکہ ہی نہیں اس کے کٹھ پتلی افغان صدر حامد کرزئی کو بھی زبان درازی کاموقع مل رہا ہے جو پروفیسر برہان الدین ربانی کے قتل کے پس منظر میں پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی پر مائیک مولن کے لہجے میں ہی الزام دھرتے نظر آئے جبکہ سرحد پار سے افغانستان کے اندر دہشت گردی کی مبینہ کارروائیوں کو روکنے کا پاکستان سے تقاضا کرنے کے معاملہ میں بھی واشنگٹن اور کابل انتظامیہ یکسو ہے جنہیں افغانستان سے سینکڑوں کی تعداد میں پاکستان میں داخل ہونے والے مبینہ دہشت گردوں اور فی الحقیقت امریکی افغانی ایجنٹوں کے پاکستان کی چیک پوسٹوں پر اب تک کے حملے نظر ہی نہیں آتے جبکہ ان حملوں میں پاکستان سکیورٹی فورسز کے بیسیوں ارکان اور عام شہریوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔
ہمارے لئے اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو گا کہ افغان مزاحمت کاروں کی کارروائیوں سے نجات پانے کےلئے واشنگٹن اور کابل انتظامیہ تو ان مزاحمت کاروں (دہشت گردوں) کے ساتھ امن مذاکرات کا راستہ اختیار بھی کر چکی ہے اور گزشتہ روز افغان لویہ جرگہ نے بھی طالبان کے ساتھ امن مذاکرات اور امریکہ سے سٹرٹیجک معاہدے کی منظوری دے دی ہے مگر امریکہ ہماری سکیورٹی فورسز کو نہ صرف ملک کے اندر فوجی اپریشن کی صورت میں اپنے ہی شہریوں سے برسر پیکار رکھوانا چاہتا ہے بلکہ انہیں افغانستان میں بھی نیٹو فورسز کا کردار سونپنے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھا ہے جس کا نتیجہ ہماری تباہی و بربادی کے سوا کچھ برامدنہیں ہو گا۔ ہماری سکیورٹی فورسز کے اپریشن اور امریکی ڈرون حملوں کے ردعمل میں ہی تو ہماری دھرتی پر خودکش بمبار پیدا ہوئے ہیں اور ہم چاروں جانب سے بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں آئے ہیں، جس طرح گزشتہ روز اورکزئی ایجنسی کے مختلف علاقوں میں بے دریغ بمباری کر کے دہشت گردوں کے نام پر شہریوں کا قتل عام کیا گیا اور ان کے گھروں اور کاروبار کو تباہ کیا گیا اس کے ردعمل میں خودکش بمبار ہی جنم لیں گے۔ ہمارا امن و سکون تو اسی پس منظر میں غارت ہوا ہے۔
اس تناظر میں ہماری حکومتی اور عسکری قیادتوں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ ہماری جانب سے امریکی مفادات کی جنگ سے باہر نکلنا اور پینٹاگون کی خود کارروائی کی دھمکیوں کا اسی کے لہجے میں جواب دینا ملکی اور قومی مفادات سے مطابقت رکھتا ہے یا امریکی مفادات کی جنگ میں کود کر خود کو جھلسانا اور امریکی غلامی کو قبول کئے رکھنا ہمارے مفاد میں ہے؟ غیور قومیں بہرصورت اپنے قومی مفادات پر کوئی سودا نہیں کیا کرتیں۔
بے نظیر کے قاتل اور رحمن ملک
وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ بینظیر بھٹو قتل کیس میں مشرف کے علاوہ اور لوگ بھی ملوث ہیں سازش ایک غیر سرکاری ادارے میں تیا رہوئی قاتل کن گاڑیوں میں آئے کس نے استقبال کیا کہاں کپڑے تبدیل کئے گئے یہ سب وقت آنے پر بتاﺅں گا۔ محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان کی سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن تھیں انکے قتل سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ۔ پاکستان آنے سے قبل بینظیر بھٹو نے اپنی ایک دوست کو ای میل کے ذریعے اپنی زندگی کولاحق خطرات سے آگاہ کیا اور سانحہ کارساز کراچی کے بعد بینظیر بھٹو نے ایک خط میں سابق صدر پرویز مشرف اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی سمیت 4افراد کو اپنا قاتل نامزد کیا تھا لیکن 27دسمبر 2007ءکو لیاقت باغ میں قتل کیے جانے کے بعد عام انتخابات میں اقتدار جب پیپلز پارٹی کے پاس آیا تو انہیں چاہئے تھا کہ سب سے پہلے اپنی قائد کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچاتے لیکن انہوں نے قائد کے نامزد قاتل پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر دیکر ملک سے بھگایا اور مفاہمت کی چادر کو دراز کرتے ہوئے قاتل لیگ کو قابل لیگ بنایا اور اسے کابینہ میں شامل کرلیاعرصہ چار سال ہونے کو ہے آج تک پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ اپنی قائد کے قاتلوں کو گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ وزیر داخلہ رحمن ملک کے بقول اگر انہیں سب معلوم ہے کہ مشرف کے علاوہ قاتل کون ہیں تو عوام کو آگاہ کیاجائے سازش سے پردہ اٹھا کر بینظیر بھٹو کی جماعت سے وفاداری کا ثبوت فراہم کیاجائے۔ پوری قوم اضطراب میں مبتلا ہے ،ایک لیڈر کو دن دھاڑے قتل کردیاگیا، قاتل کن گاڑیوں میں آئے استقبال کرنیوالے کون ہیں ،کپڑے کہاں تبدیل کیے گئے، اگر اتنی زیادہ معلومات رحمن ملک کے پاس ہیں تو انہیں پکڑ کر کیفر کردار تک کیوں نہیں پہنچایاجاتا۔ صدر آصف علی زرداری نے بھی بینظیر بھٹو کی پہلی برسی پر یہی دعویٰ کیا تھا کہ مجھے پتہ ہے،شہید بی بی کے قاتل کون ہیں آج پیپلز پارٹی کے پاس اقتدار محترمہ کے خون کے طفیل ہے۔صدر زرداری کا اقتدار اوررحمن ملک کی وزارت بھی بی بی کے خون کی مرہون منت ہے، پاکستانی عوام یہ قیاس کرنے میں بجا ہوں گے کہ جو پارٹی لیڈر یا وزیر معلومات ہونے کے باوجود اپنی قائد کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کرتا وہ نہ تو ملک کا مخلص ہوسکتا ہے اور نہ ہی اپنی جماعت کا خیر خواہ،اب پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی ذمہ داری ہے کہ رحمن ملک سے اپنی قائد کے قاتلوں کا پوچھ کر انہیں قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرے کیونکہ حکومت کے ختم ہوتے ہی رحمن ملک تو لندن اپنے ملک بھاگ جائینگے اور ایک عظیم لیڈر کے قتل کا معمہ حل نہیں ہوسکے گا۔پیپلز پارٹی حکومت ساڑھے تین سال کے عرصے میں اپنی لیڈر کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کرسکی تو کیا بی بی کے قاتلوں کو بے نقاب کرنے کا وقت پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد آئیگا؟ اس معاملے میں عوام کو بے وقوف سمجھا جائے نہ بنایا جائے۔
کہاں ہیں حکومت کی اقتصادی اصلاحات؟
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ ”پاکستان نے آئی ایم ایف سے کوئی نیا قرضہ نہیں مانگا، حکومت اقتصادی اصلاحات لا رہی ہے، ہمارے مشکل فیصلوں کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں“، دوسری طرف پاکستان میں آئی ایم ایف مشن کے سربراہ عدنان مزاری نے کہا ہے کہ ”پاکستان میں سب اچھا نہیں ہے،ٹیکسوں کی شرح بڑھانا ہوگی“۔ دونوں صاحبان اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔موجودہ حکومت کو برسرِ اقتدار آئے تقریباً پونے چار سال ہوگئے ہیں، حکمرانوں نے اقتصادی اصلاحات او رمعاشی تبدیلیاں لانے کے بڑے دعوے کئے تھے لیکن آج حالت یہ ہے کہ معاشی ابتری کی بدولت عام آدمی کا جینا دوبھر ہوگیا ہے، کاش کہ وزیر خزانہ حکومت کے ”مشکل فیصلوں کے نتیجے میں ظہور میں آنے والے مثبت نتائج “کی کوئی ادنیٰ سی تفصیل ہی بتا دیتے۔ وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ برآمدات بڑھی ہیں ،بیرونی ترسیلات میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود ملکی معیشت مشکل ترین صورتحال سے دوچار ہے،وزیر خزانہ جن اقتصادی اصلاحات کا ذکر کر رہے ہیں اُن میں سرفہرست ٹیکس نیٹ ورک کووسیع کرنا ہے،ا س وقت ملک میں ٹیکس دہندگان کی تعداد دو کروڑ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے اور ان میں تقریباً نوے فیصد ملازمت پیشہ لوگ ہیں یا چھوٹا کاروباری طبقہ۔ جن کے پاس بے تحاشا دولت ہے، انہوں نے ٹیکس بچانے یا چوری کرنے کے بڑے محفوظ راستے اپنا رکھے ہیں۔ اگر ہم ٹیکسوں کی وصولی کا ایماندارانہ نظام تشکیل پانے میں کامیاب ہوجائیں اورہمارے ہاں کا ہر ادنیٰ، اعلیٰ، جس کے ذمے جو ہو، ایمانداری سے قومی خزانے کو ادا کرنے لگے تو ملک کی ساری اقتصادی مشکلات دور ہوسکتی ہیں اور ہم پر کشکول برداری کا جو ٹھپہ لگا ہے اُس سے نجات مل سکتی ہے لیکن یہ معرکہ کوئی ایسی قیادت ہی سرانجام دے سکتی ہے جو ملک و قوم سے مخلص ہو!
ایران نے پاکستان کو بجلی کی فراہمی تین گنا بڑھادی
ایران نے پاکستان کو برآمد کی جانے والی بجلی کی مقدار میں تین گناہ اضافے کا فیصلہ کیا ہے،ایرانی وزیر نے کہا ہے بجلی کی برآمد میں اضافہ مرحلہ وار ہوگا، پہلے سو میگا واٹ فراہم کی جارہی ہے۔ یہ نہایت خوش کن خبر ہے کہ پاکستان ایران سے بجلی درآمد کرنے پر راضی ہوگیا ہے اور اس طرح ایران جیسا برادر اسلامی ملک پاکستان کے توانائی بحران کوکم کرنے میں نمایاں کردار ادا کریگا جس کیلئے پاکستان کے عوام حکومت ایران کے شکرگزار ہیں، یہ بجلی سستی ہوگی اور توقع کی جاسکتی ہے کہ ہمارے بجلی کے بلوں میں بھی قدرے کمی واقع ہوگی اور لوڈشیڈنگ میں بھی اضافے سے خلاصی ملے گی۔ پاکستان اس درآمد کے ساتھ ہی اپنی ہائیڈل بجلی پیدا کرنے کے پراجیکٹوں پر بھی کام شروع کرے اور توانائی کے معاملے میں امریکی مداخلت کو ہرگز قبول نہ کرے، اگر ایران سے بجلی درآمد کی جارہی ہے تو گیس پائپ لائن پر بھی کام شروع کردیاجائے اور کسی کے روکے پر یہ سستا اور مفید ترین منصوبہ ترک نہیں کرناچاہیے، ایرانی گیس پائپ لائن ہمارے دروازے پر ہے اب اس کو اندر لے آنا ہمارا کام ہے،اس اقدام سے اوگرا کو آئے روز گیس کے نرخوں میں اضافہ بھی نہیں کرنا پڑیگا، ایران کی یہ بڑی نیکی ہے کہ وہ سستی بجلی اور گیس دینے پر آمادہ ہے ہماری حکومت کو اس پیشکش سے فائدہ اٹھانے میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔
0 comments:
Post a Comment